Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

Kuch Na Samjhay Khuda Karay Koyi, Asad Mahmood, Urdu Column,

جب کہنے کو کچھ باقی نہ رہے تو اُس وقت خاموش ہو جانا ہی بہتر ہے لیکن ذرا تاریخ کے ڈانڈے ملا لینے میں  حرج ہی کیا ہے ؟ چلیں  ذرا ایک نظر دوڑاکے دیکھ لیتے ہیں ۔  شاید بے ثاثر لہجے میں  ثاثر کا کچھ شائبہ آ ہی جائے۔ ایک دیوانے کی دیوانگی ہی سہی،۔ کوشش کر دیکھتے ہیں!

تاریخ میں  پہلی” فال “کے طو پہ بغداد کا صفحہ کھلا ہے ۔یہ بغداد کا شہر تھا۔علم بامِ عروج پر تھا۔ہزاروں  عالمِ دین موجود تھے ۔یہ علامہ حضرات جب گفتگو اور بحث مباحثے میں  لفاظی اور دلائل و براہین کا استعمال کرتے تھے تو لوگ عش عش کر اُٹھتے تھے ۔ انہی دنوں ہلاکو نامی ایک سر پھِرے کی آمد آمد تھی۔ یہ ”جاہل“ شخص تھا۔علم سے اس کا دُور دُور تک کوئی واسطہ نہ تھا۔لیکن یہ حرب کا ماہر تھا ۔ یہ اپنے فن کااُستاد تھا۔ اور اس کا فن تھا دہشت و بربریت۔ جب بغداد کے ہزاروں  عالم علمی مو شگافیوں  میں  مشغول و منہمک تھے تو یہ ”بد بخت“گردو نواح میں  بسی بسائی بستیاں  تاراج کر تا ہواآندھی و طوفان کی مثل بغداد کی طرف بڑھا۔

ملاحظہ ہوں شرطیہ مٹھے بلاگ:

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

بغداد کے کوچہ و بازار کے علمی مباحثوں  میں  اس ”نابکار“ کی آمد کی خبر پہنچی لیکن انہیں  علم جیسی ”پُر فضیلت“ سرگرمی سے فرصت نہ تھی ۔ سو، علمائے بغداد اسی بات پہ بحث میں  مصروف رہے کہ سوئی کی نوک سے کتنے فرشتے گزر سکتے ہیں ۔ اور دوسری طرف وہ ازلی بدبخت بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا گیا۔یعنی اگر ”غیر جانبدارانہ“ تجزیہ کیا جائے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہلاکو کا جاہل اور جنگجو ہونا ہی اُس کے کام آگیا ورنہ وہ بغداد کے علماءکی تاویلوں  کے ہاتھوں  اپنی عزت گنوا بیٹھتا۔

دوسرا قصہ زیادہ پرانا نہیں  ہے ۔یہاں  دلّی کا دربار سجاہے۔ ایک مسلمان بادشاہ تخت نشین ہے۔اس” باتمکنت “کا نام محمد شاہ رنگیلا ہے۔اس کے دَور میں  مملکت ِ ہندوستان میں  رقص و موسیقی کا دَور دَورہ ہے۔ اور بادشاہ سلامت کی تشریف آوری کا منظرتصور کی آنکھ سے ذرا ملاحظہ تو کریں  کہ برہنہ دوشیزائیں  دائیں  بائیں  راستے میں  پڑی ہیں  اور ان کے بالوں  پہ قدم دھرتے ہوئے مملکت ِ برصغیر کے فرمانروا گردن اکڑائے چلے آرہے ہیں ۔

ادبی وی لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔

ایک دن یونہی محفل سجی سنوری تھی ۔رقص و سرود جاری تھا کہ اچانک ایک مخبر دربار میں  باریابی کی اجازت طلب کرتا ہے۔پہلے توشہنشاہِ وقت اُسے کارِ سرکار میں  مخل ہونے کی اجازت نہیں  دیتے اور پھر جب مخبر کوبار بار تنگ کرنے پہ اذنِ باریابی ملتا ہے تو وہ سب درباریوں  کو دہلا کر رکھ دیتاہے کہ نادر شاہ کابل کے رستے ہندوستان پہ حملہ کرنے آرہا ہے لیکن محمد شاہ رنگیلا کو اِس بات پہ یقین نہیں  آتا اور جب بادل نخواستہ یقین کرتے ہی بنتی ہے تو محفل سے اُٹھنے کو جی نہیں  چاہتا۔”نالائق“ مخبر بار بار مطلع کرتا ہے کہ نادر شاہ بس پہنچا ہی چاہتا ہے لیکن رنگیلا کو رنگین مزاجیوں  سے فرصت نہیں  ملتی اور وہ ہر بار یہی فرماتے ہیں  کہ

”ہنوز و دلی دُور است“

(ابھی دلّی بہت دور ہے)

لیکن نادر شاہ بالآخر شاہی دربار میں  آن دھمکتا ہے۔اور وہ ”بے ذوق“ انسان بجائے محمد شاہ رنگیلا کی اختراعات اور ذوق کی داد دینے کے،دلّی کو لوٹنے اور قتلِ عام کا حکم دے دیتا ہے۔ تین دنوں  میں  دلّی کی گلیاں  محمد شاہ رنگیلا کے درباراور ذوق کی طرح رنگین ہو جاتی ہیں  لیکن یہاں  پہ اس بے طرح رنگینی کی وجہ کوئی مترنم محفلِ موسیقی،کوئی بزمِ رقص و سرود نہیں  بلکہ اُن بے گناہوں  کا خون ہے جن کا قصور محض یہ تھا کہ وہ محمد شاہ رنگیلا کے عہد میں  زندہ تھے۔

ملاحظہ ہوں شرطیہ مٹھے بلاگ:

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

تاریخ تھوڑا سا مزید آگے سرکتی ہے۔اس مرتبہ مملکت ِ پاکستان کا ایک شہر راولپنڈی تاریخ رقم کرنے کو ہے ۔ یہ 15نومبر 2013ءہے ۔اسلامی تاریخ میں  نئے سال کا دسواں  دن ہے۔ 10محرم الحرام1435ھ۔ دن جمعہ مبارک ہے ۔راولپنڈی میں  دو مذہبی گروہ ایک دوسرے پہ جھپٹتے ہیں اور گرانی کے اِس دَور میں  خونِ مسلم ارزاں  ہو جاتاہے۔ صورتحال انتظامیہ کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے توفوج کو طلب کرلیا جاتا ہے۔ڈیڑھ دو دن کر فیو نافذ رہتا ہے ۔ لیکن یہاں  بھی علماءضرور مداخلت کرتے ،ضرور صلح جوئی کی کوششیں کرتے لیکن انہیں تحریک ِ طالبان پاکستان کے لیڈر حکیم بیت اﷲ محسودکی ہلاکت یا شہادت کے تعین جیسا اہم مسئلہ درپیش تھا۔سو، یہ پہلا کام ذرا ثانوی حیثیت کا تھا، باری آنے پہ یقینااُس سے متعلق بھی فتاوی جاری کر دیئے جائیں گے۔

جب کہنے کو کچھ باقی نہ رہے تو اُس وقت خاموش ہو جانا ہی بہتر ہے لیکن ہمارے ہاں جب کہنے کو کچھ باقی نہ رہے تو ہتھیار اُٹھا لیے جاتے ہیں ۔ دلیل میں  لاجواب کرنے والے کا سر کاٹ دیا جاتا ہے اور یوں  پھر کوئی ہم سے اختلاف کرنے کی جرات نہیں  کر سکتا اور ہمارا” اِسلام"سربلندہو جاتا ہے۔آپ یقین مانیں  ،سانحہ ءِ راولپنڈی سے قبل میں  مسلمان ہونے کو ہی انسانیت سمجھتا تھا لیکن اس واقعے کے بعد مجھے لگنے لگا ہے کہ میں  غلط تھا یہ دونوں  یکسر نہیں  تو جزوی طور پہ ایک دوسرے سے مختلف ضرور ہیں ۔کم از کم سارے ”مسلمانانسانیت کی شرائط پر پورے نہیں  اُترتے اور جو مسلمان ہوتے ہوئے بھی انسان رہتے ہیں ۔ وہ ”اُن “ کے ہاتھوں  زندہ نہیں  رہتے۔ میں  سوچتا تھا کہ ہم مسلمان ہوتے ہوئے بھی ، دینِ مبین کے پیروکار ہوتے ہوئے بھی چہاردانگ ِ عالم میں  سب سے کیوں  پِٹ رہے ہیں لیکن اب مجھے احساس ہورہا ہے کہ یہ سب ہمارے ایسے ہی کرتوتوں  کا نتیجہ ہیں ،یہ ہمارے کالے اعمال ہیں ، ہمارے دوغلے رویے ہیں ،جوہم سب مسلمان ہوتے ہوئے بھی روا رکھے ہوئے ہیں ۔

یہ پڑھنا بھی مت بھولیں:

حق مغفرت کرے

اے پی سی

بابا رحمتے کے تاریخی فیصلے

حکیم محمد سعید ، علامہ حسن ترابی اور مفتی شامزئی جیسے چراغ کراچی کی روشنیوں  میں  ہمارے ”اپنوں “ کے ہاتھوں  ہی بُجھ جاتے ہیں۔ڈاکٹر شبیہ الحسن کولاہور کی گلیوں  میں  لگنے والی اندھی گولی کو ان کا شاعر ہونا نہیں  بلکہ ایک دوسرے فرقے سے تعلق نظر آتا ہے۔ مینگورہ (سوات) میں  ”جہاد “ میں  مصروف”مسلمان“ ایک نہتی معصوم لڑکی پر گولیوں  کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں  اور پھر جب وہ اپنی کتاب میں  ان کے خلاف زبان کھولتی ہے تو اس پہ دوبارہ حملے کاعندیہ بھی دیتے ہیں ۔

یہ کیسے سینہ زور ہیں  کہ کوئی اگر ان کی کوششوں  کے باوجود موت کے منہ سے بچ نکلتا ہے تو پھر بھی اُس سے یہ توقع رکھتے ہیں  کہ وہ ان کی گولیوں  کے جواب میں  بھی ان کو ”شیخ الاسلام“ ہی کہے گا۔یا باری تعالیٰ! یہ کیسی اندھیر نگری ہے ،یہ کیسے مسلمان ہیں  جو اقتدار کے رستے میں  آنے والی ہر چیز کو کافر بنا اور بتا کر ختم کر ڈالتے ہیں  اور پھر بھی مسلمان رہتے ہیں  ۔یہ کیسے مسلمان ہیں  جو انسانیت کے درجے سے بھی گر گئے ہیں  لیکن پھر بھی ”علامہ اور مفتی “ سمجھے جاتے ہیں ۔یہ کیسے مسلمان ہیں  جو ہزاروں  معصوم لوگوں  کو بم دھماکوں  میں  مروا ڈالتے ہیں  لیکن خودمریں  تو شہید کہلاتے ہیں  ۔آپ یقین مانیے کہ میرے پاس ان تمام سوالوں  کا کوئی جواب نہیں  ہے ۔اگر آپ کے پاس ہو تو ضرور بتائیے گا!

یہ بھی پڑھیے:

ایشیاء کا پرندہ ۔ عبدالخالق

جائیے! منہ دھو رکھئے

ہم خواہ مخواہ معذرت خواہ ہیں

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے