میں
بس کے پیچھے لٹک کر اپنے گھر کے نزدیکی
اسٹاپ تک پہنچا۔بس کے ”ڈسکو ڈانس“ کے سِحرزدہ ماحول سے نکلنے کے بعد میں نے دیکھا کہ میرے سفید کاٹن کے استری اور کلف
شدہ سُوٹ پہ دنیا کے کئی نقشے بن چکے تھے۔مستقبل کی دنیا کی اس قدر واضح منظر کشی
پہ ڈرائیور یقینا ”داد“ کا مستحق تھا لیکن میں نے جب منہ کھولا ،تب تک بس روانہ ہوچکی تھی۔ یوں
”داد“ بس کے پچھلے پائیدان سے ٹکرا کر رہ
گئی۔
گھر
جانے کے لیے میں نے قدم آگے بڑھائے ۔ کچھ
دیر چلنے کے بعد ایک نسبتاََ ویران سی جگہ آگئی ۔ جہاں سڑک کے اِرد گرد محض کھیت ہی کھیت تھے اور قرب و
جوار میں درخت نام کی بھی کوئی شے نہ تھی۔میں
مست خرام چلتا جا رہا تھا کہ اچانک میرے
کانوں میں کائیں کائیں کی چند مانوس سی آوازیں پڑیں ۔میں نے پلٹ کر آواز کی سمت دیکھا تو پتھر کا ہوتے
ہوتے بچا۔میری گھبراہٹ دو چند ہوگئی۔کوؤں کا ایک لشکر چیختا چنگھاڑتا میری طرف بڑھ رہا
تھا۔
چونسے، لنگڑے، انور راٹھول بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
میں نے
جائے پناہ کے لیے اِرد گرد نظر دوڑائی لیکن دُور دُور تک خالی سڑک میرا منہ چڑھا
رہی تھی۔میں نے دِل ہی دِل میں ”جل تُو،جلال تُو“کا وِرد کرتے ہوئے سر پہ ہاتھ
سے پنکھا جھلنا شروع کردیا کیونکہ کوؤں سے
میری آشنائی کوئی نئی بات نہ تھی ۔میں ان
کی تمام حربی چالوں سے بخوبی واقف تھا۔اب
بھاگنے کا چونکہ کوئی راستہ نظر نہیں آرہا
تھا اس لیے میں نے میدان میں ہی ڈٹ کر لڑنے کی ٹھانی تاکہ تاریخ مجھے سنہری
الفاظ اور شہید کے القاب سے یاد کرے۔میں وہیں سڑک کے بیچوں بیچ رُک کر دشمنوں کی تعداد اور ان کی متوقع جنگی حکمت ِ عملی کے
بارے میں غور کرنے لگا۔
اگلے
چند لمحوں میں کوؤں نے
مجھے فضا میں آئے دشمن ملک کے طیارے کی
طرح گھیر لیااور نرغے میں لے کر میرے سر سے کچھ فاصلے پر دائرہ بنا کر
اُڑنے اور کائیں کائیں کرنے میں مصروف ہو گئے۔اس سے پہلے کہ میری سماعت جواب
دیتی،اُن میں سے ایک کوا آگے بڑھا۔اس کے
گلے میں کوئی تعویز نما کاغذ لٹک رہا تھا۔اُس
کوے نے آگے بڑھ کر پَر پھیلائے اوردیگرتمام کوے چپ ہوگئے ۔ مجھے لگا کہ یا تو وہ
کوا اُن کا سردار تھا یا پھر کوئی چُھٹا ہوا بدمعاش۔
ادبی وی
لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
وہ
کوا مجھ سے گویا ہوا:
”مجھے
پہچانا؟“
”جی
نہیں! “
میں
نے ازحد خوش دِلی سے جواب دیا۔
مجھے
لگا کہ وہ کسی اور شخص کی تلاش میں غلطی
سے مجھ تک آگئے ہیں ۔
کوے نے آنکھیں نکالیں :
”یاد
کرو کچھ ہفتے قبل میں دیگر جانوروں کے ساتھ تم سے ملاقات کرنے آیا تھا“
کوے
کی یادہانی پہ میرے چودہ طبق روشن ہوگئے ۔
”لل،
لیکن ہمارے درمیان تو اُس دِن ایسی کوئی بات نہیں ہوئی تھی کہ تم یوں لاؤ لشکر لے کر چڑھ آتے “
میری
آواز تقریباََ گھگھیانے والی ہوگئی ۔
کوے
کی آواز نرم ہوگئی :
”
ارے نہیں ! میں تم سے لڑنے نہیں آیا بلکہ تمہیں یہ خط دینے آیا ہوں “
کوے
کے گلے میں لٹکتے ہوئے تعویز کے بارے میں یہ جان کر کہ وہ خط ہے ، مجھے ذرا تعجب نہ ہوا۔
”کیا
یہ پھر اُس نامعقول گدھے نے بھیجا ہے ؟“
میں
نے تیز آواز میں کہہ کر کانی آنکھ سے کوؤں کی طرف دیکھا۔
ملاحظہ ہوں
شرطیہ مٹھے بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
کوا
بولا:
”نہیں
یہ میرا خط ہے “
مجھے حیرت ہوئی :
”تو
تم نے یہ خط کبوتر کے ہاتھ کیوں نہیں بھیجا؟“
”وہ دراصل ہم اپنا کام خود کرنے کے عادی ہیں “
کوے نے فخر سے سینہ پُھلایااور باقی تمام کوؤں نے کائیں کائیں کا نعرہ بلند کر کے اُس کی تائید کی۔
میں نے
دوبارہ کوے سے پوچھا :
”تو
تم یہ خط لے کر ہی کیوں آئے ؟ اگر خود ہی
آنا تھا تویونہی دُوبدو بات کر لیتے“
کوے
سے زور زور سے پَر ہلائے اور اس سے پہلے کہ باقی کوے بھی اُس کی پیروی کرتے ،میں نے فوراََ سے پہلے دُور اندیشی کا عظیم مظاہرہ
کرتے ہوئے چشمہ اُتار کر جیب میں رکھ لیا
کہ کہیں ان کے پروں کی ہوا سے اُڑ ہی نہ جائے۔
”ساری
باتیں منہ زبانی کہنے کی نہیں ہوتیں “
کوے نے منہ بنا بلکہ منہ پھیر کر کہا۔
کوے
کے اس جواب پہ میں حیران ہوا:
”کیا
مطلب ؟؟؟“
”
کیا تم میمو گیٹ اسکینڈل اور سوئس حکومت کو خط کے معاملے بھول گئے ہو؟“
کوے
کی اِس دلیل پر میں نے گھبرا کے اِدھر
اُدھر دیکھا ۔خوش قسمتی سے قرب وجوار میں میرے اور کوؤں کی فوج کے علاوہ کوئی نہ تھا۔
”وہ
بڑے لوگوں کے معاملے ہیں ۔ ہم تم جیسے
للّو پنجواس بارے میں کیا جانیں ؟“
میں
نے کوے کو دندان شکن جواب دینے کی ٹھانی
لیکن میرا لہجہ مجھی پہ ہنستاہوا معلوم ہوا۔
یہ پڑھنا بھی مت بھولیں:
”اور
اگر تم مجھ سے لڑنے نہیں آئے تو پھر یہ
فوج لانے کی کیا تُک بنتی ہے؟“
میری
سوئی وہیں اَٹکی دیکھ کر کواگویا مسکرایا:
”دراصل
جب تم بس کے پیچھے لٹکے جھولا جُھولنے میں مصروف تھے تو میں نے کافی کوشش کی کہ تم تک پہنچ سکوں لیکن نہ پہنچ پایا۔ میں نے کافی پکارا ،تم نے تو کچھ نہ سُنا البتہ یہ
میرے ہم جنس اکٹھے ہوگئے کہ ان کے خیال میں مجھ پہ کوئی مصیبت آن پڑی تھی اور پھر باوجود
میرے منع کرنے کے یہ میرے ساتھ ہی چلے آئے“
کوے
کی زبانی الف لیلوی کہانی سُن کر میرے ہوش ٹھکانے آئے ۔گو ،ابھی اُس سے کہنے سننے
کو کافی کچھ تھا لیکن جس دَور میں انسانوں
کا اعتبار نہ ہو ، وہاں بے زبانوں پہ اعتبار کرنے کی غلطی کون کر سکتا ہے ،سو،میں نے کوے سے خط لیا اور جلد ی سے گھر کی راہ لی۔
گھر
میں پہنچ کر سکون کا سانس لیا۔کچھ دیر
”آرام در آرام“ کیا اورپھر آرام کرسی پہ بیٹھ کر کوے کا خط کھول لیا ۔لکھا تھا کہ
یہ بھی
پڑھیے:
”رنگ برنگے فلسفوں اور بے ڈھنگے طور طریقوں
والے نام نہاد دانشور، آداب!
کچھ
عرصہ پہلے جب تم نے کوﺅں
کے بارے میں ’کوے کی سی خصلت‘ نامی کالم لکھا تو میں یہ سوچ کر چپ ہوگیا کہ تم نئے نئے لکھاری ہو ،
موضوعات کی کمی ہوگی ۔سو ، تم نے ہمیں موضوعِ سخن بنا لیا ،تو، کوئی بات نہیں لیکن تم تو سر پہ ہی چڑھ بیٹھے ۔ ’اے پی سی ‘ میں
جہاں تم نے تمام جانوروں کے لیے نہایت ناموزوں الفاظ والقاب استعمال کیے ،وہیں ہم جیسی باشعور اورذہین مخلوق کو نالائق طالب
علم ہونے کا طعنہ بھی دیا۔میں کوﺅں
کی جو فوج ساتھ لایا تھا وہ سب میرے سپاہی
تھے او رآج کے واقعے کو تم محض ابتداءہی سمجھو کیونکہ اگر تم نے اپنے اگلے کالم میں
’غلطی دُرست فرما لیں ‘ کے عنوان سے اپنے اگلے پچھلے سیاہ کارناموں کی معافی نہ مانگی تو اگلی بار جب تم بس کے
پیچھے لٹکے تو گھر جانے کے قابل نہیں رہو
گے ۔ میری اِس دھمکی کو محض دھمکی مت سمجھنا کیونکہ تمہارے پاس نہ تو سابق آمر کی
طرح راستے میں بیمارہو کر ہسپتال پہنچ کر
جان بچانے کا بہانہ ہوگا اور نہ ہی کوئی ’قائدِ تحریک ‘ تمہاری پشت پناہی کر سکے
گا اور اگر تم نے اِس دھمکی کو بھی ہوا میں اُڑا دیا تو یقینا وہ دِن دُور نہیں جب تمہارے کسی کالم کا نام ’کوے کا انتقام ‘
ہوگا۔ والسلام
فقط
کوا
، ممبر اَمن کمیٹی انجمنِ جانواراں پاکستان“
میں
نے کوے کا خط ایک طرف اُچھالا اور اپنے
چچا جان کی مشہور ِزمانہ ”مکھی مارکہ “ غلیل ڈھونڈنے میں مصروف ہوگیا!
مزید دِل
چسپ بلاگ:
0 تبصرے